2 فروری 2025 - 13:32
الضیف مزید دنیا کے مہمان نہ رہے / طوفان الاقصیٰ کی اہمیت اور اثرات / قرآنی تائید + تصاویر اور ویڈیوز

غزہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے بچوں نے یک آواز ہوکر نعرہ لگایا: "ہم سب ضیف کے سپاہی ہیں"۔ یہ وہی عظیم ورثہ ہے جو حماس کے اس پراسرار کمانڈر نے اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔/ طوفان الاقصیٰ اہم کیوں ہے اور اس کے اثرات کیا ہیں / مقاومت کی قرآنی تائید اور فتح کا قرآنی وعدہ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے حماس کے پراسرار کمانڈر اور "اسرائیل کے دشمن نمبر ایک" کی شہادت کی تصدیق کر دی۔

القسام بریگیڈز کے پراسرار راہنما جنہوں نے سات مرتبہ صہیونیوں کو ناکام و نامراد کر دیا تھا، آخرکار اپنے چند قریبی ساتھیوں کے ہمراہ صہیونیوں کے حملے میں جام شہادت نوش کر گئے۔

انہیں "ضیف" (مہمان) کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ایک رات بھی کسی ایک مقام پر نہیں رہ سکتے تھے۔ ہمیشہ مہمان تھے۔ اس دنیا کے مہمان۔ ایک مہمان ایک خاص مشن کے ساتھ۔ ایسا مشن جسے ـ بہت بعید ہے ـ کہ تاریخ بھول سکے۔ ایسا مشن، جس نے مغربی ماہرین کے اعتراف کے مطابق، تاریخ کو اپنے ما قبل اور مابعد میں تقسیم کر دیا۔ وہ مشن تھا طوفان الاقصیٰ [اور تاریخ یوں تقسیم ہوگئی :طوفان الاقصیٰ سے پہلے اور طوفان الاقصیٰ کے بعد]۔

محمد الضیف کا مختصر تعارف

شہید محمد ضیف کا حقیقی نام محمد دیاب ابراہیم المصری تھا اور حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس" کی فوج شاخ "عزالدین القسام بریگیڈز" کے سپہ سالار تھے۔

کہا جاتا ہے کہ شہید محمد الضیف نے شہید یحییٰ السنوار کے ساتھ مل کر سات اکتوبر 2023ع‍ کے تاریخی کارنامے "طوفان الاقصیٰ" آپریشن کو ڈیزائن کیا تھا۔

اسرائیلی الضیف الضیف کو اپنا دشمن نمبر 1 سمجھتے تھے، اور انہوں نے کئی بار ان پر قاتلانہ حملے بھی کئے تھے۔

کچھ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونیوں نے 9 مرتبہ اس شہید کے قتل کے منصوبے بنائے تھے، اور تمام تر ذرائع متفق القول ہیں کہ الضیف پر کم از کم سات مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے ہیں، لیکن ہر با اپنی کیاست سے، صہیونیوں کو ناکام بنا چکے تھ، یہاں تک کہ صہیونیوں نے کہا تھا کہ "الضیف کی 9 جانیں ہیں"۔

محمد الضیف تقریبا تین عشروں پر محیط شب و روز جہادی سرگرمیوں کے دوران گرفتار بھی ہوئے، قید بھی کر لئے گئے، ان کی ایک آنکھ بھی چلی گئی، اور بارہا صہیونیوں کے دہشت گردانہ حملوں کے نشانے پر بھی رہے۔

محمد دیاب ابراہیم المصری المعروف بہ "محمد الضیف" سنہ 1987ع‍ میں حماس سے جا ملے اور کچھ عرصہ بعد اپنی جہادی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار ہوئے۔ 16 مہینوں تک صہیونی عقوبت میں پابند سلاسل کم از کم قیمت تھی جو انھوں نے جہاد کی راہ میں ادا کی۔

محمد الضیف اسرائیل ہی لئے ایک ڈراؤنا خواب نہیں تھے بلکہ اس کے دیرینہ اتحادی "امریکہ" کے لئے بھی ڈرواؤنا خواب تھے۔ اس شہید عظیم الشان کا نام سنہ 2015ع‍ سے امریکہ کے مطلوبہ افراد کی فہرست میں بھی اور یورپی اتحاد کے بلیک لسٹ میں بھی شامل تھا۔

شہید الضیف کی تصاویر بہت محدود پیمانے پر شائع ہوئی تھیں چنانچہ ان تصاویر کی درستگی پر بھی یقین نہیں کیا جا سکتا تھا، اسی بنا پر انہیں "حماس کے پراسرار مرد" کا لقب دیا گیا تھا۔ ایسے پراسرار مرد جن کی تصویر کی تصدیق بھی ان کی شہادت کی تصدیق کے بعد ہوئی۔

غاصب صہیونی ریاست نے طوفان الاقصیٰ کے بعد کئی مرتبہ انہیں شہید کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن حماس نے چند ہی دن قبل ان کی شہادت کی تصدیق کر دی۔

وہیل چیئر پر بیٹھا سایہ، جس نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا

شہید الضیف اس قدر سائے میں رہ کر کام کرتے تھے اور اس قدر آنکھوں سے اوجھل تھے کہ کچھ لوگوں نے انہیں "شبح" (سائے) کا نام دیا تھا۔

صہیونیوں نے سات اکتوبر سے قبل ایک مرتبہ یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ الضیف شدید زخموں اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے وہیل چیئر پر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے ہیں؛ لیکن بعدازاں شائع ہونے والی تصاویر سے معلوم ہؤا کہ الضیف نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر معرکۂ طوفان الاقصیٰ کی قیادت کی ہے۔

طوفان الاقصیٰ ضیف کے جہادی کارناموں میں نمایاں ترین کارنامہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ معرکہ اتنا اہم کیوں ہے؟

سات اکتوبر کا واقعہ ایک معمولی واقعہ نہیں تھا

"سات اکتوبر کے واقعے نے اسرائیل کی فوجی تیاریوں اور اس کی انٹیلی جنس مشینری کے بہت گہرے نقائص یو طشت از بام کیا"۔ یہ وہ جملہ ہے جو جریدہ "نیشنل انٹرسٹ نے سات اکتوبر کے بعد کے صہیونی ریاست کے حالات کی توصیف میں لکھا تھا۔

جعلی ریاست کو ایک معمول کی ریاست کے طور پر منوانے کی سازش کی ناکامی

ماہرین زور دے کر کہتے ہیں سات اکتوبر کا واقعہ "معاہدہ ابراہیم" کے تحت، خطے کے ممالک ـ بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ ـ اسرائیل کی سفارتی تعلقات کی بحالی کے عمل کو روکا ہی نہیں بلکہ الٹ کر رکھ دیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں، صہیونی ریاست کا یہ منصوبہ ـ کہ عرب ممالک اس کو تسلیم کریں ـ سات اکتوبر کے واقعے کی وجہ سے خاک میں مل گیا۔

ابراہیم معاہدہ، اسرائیل، امارات اور امریکہ کا مشترکہ معاہدہ تھا جو 13 اگست 2020ع‍ کو منعقد ہؤا۔ یہ معاہدہ صہیونیوں اور امارات کے درمیان امن و آشتی اور ان کے درمیان تعلقات کی بحالی پر تاکید کرتا ہے۔

فلسطین کا بھولا بسرا واقعہ، مسئلہ نمبر 1 بن گیا

دوسری طرف سے مغربی ماہرین کہتے ہیں کہ سات اکتوبر کے واقعے نے فلسطین کے بھولے بسرے مسئلے کو ایک بار پھر عالم اسلام اور عالم عرب کا مسئلہ نمبر ایک بنا دیا۔

جعلی اسرائیل نے طویل عرصے سے ـ اور خاص طور پر معاہدہ ابراہیم کے بعد ـ فلسطین پر اپنے قبضے کو معمول کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن سات اکتوبر کا واقعہ سبب بنا کہ امریکہ، اسرائیل اور سازشی عرب ریاستوں کے تمام تر خبیثانہ اقدامات تعطل سے دوچار ہوجائیں۔

صہیونیوں کو حاصل مغربی غیرمشروط حمایت کو دھچکا لگا

امریکی ذرائع کا اعتراف ہے کہ غزہ کی جنگ نے امریکی معاشرے کے کلیدی شعبوں ـ بالخصوص امریکی جوانوں (Z Generation) میں ـ اسرائیل کو حاصل حمایت میں شدید کمی آئی اور امریکہ میں اسرائیل پر اعلانیہ تنقید شروع ہوئی؛ اور جتایا گیا کہ اسرائیل پر تنقید یہودیت دشمنی (Antisemitism) کے مترادف نہیں ہے اور اگر ایسا ہے بھی تو "یہودیت دشمنی بھی کوئی عیب نہیں ہے"؛ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

جعلی اسرائیل کے لئے مغرب کی بنی بنائی ساکھ غارت ہو گئی

غزہ پر صہیونی جارحیت کی وجہسے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی، تقریبا دو لاکھ افراد شہید اور زخمی ہوئے جن میں اکثریت بچوں اورخواتین کی ہے، غزہ کا 80 فیصد شہری ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ جنگ اور جارحیت کا شکار حماس، جہاد اسلامی اور دوسری جہادی تنظیمیں ابلاغی جنگ سے غافل نہیں ہوئیں نیز پیشہ ور عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی ان کے ساتھ مل کر، ان حالات میں بھی، غزہ کے واقعات کو کوریج دی اور دنیا نے تخریب، قتل عام، نسل کشی، طفل کشی، حرث و نسل کے قتل کے مناظر، وقوع کے فورا بعد، دیکھ لئے، دنیا نے دیکھا کہ غاصب صہیونی ریاست مغرب کی رضامندی سے عوام الناس کا قتل عام کر رہی ہے اور بچوں کو براہ راست نشانہ بنا کر قتل کر رہی ہے، شہر کے شہر اور محلے کے محلے تباہ ہو  رہے ہیں، تو عالمی احتجاج میں بھی زبردست اضافہ ہؤا، صہیونیوں پر اعلانیہ تنقید کی گئی اور یہ تنقید و احتجاج پہلی مرتبہ عالمی رویے کے طور پر ابھرا۔ مغرب اور اس کا لگایا ہؤا شجرہ خبیثہ رسوا ہو چکا۔ یہ سب 7 اکتوبر 2023ع‍ کے بعد ہؤا۔

غاصب صہیونی ریاست میں دراڑیں پڑ گئیں

بے شک سات اکتوبر کے واقعے نے صہیونی ریاست کو ایک بار مکمل طور پر شکست و ریخت سے دوچار کر دیا اور امریکہ اور یورپ نے اسے سنبھالا دیا اور غزء پر صہیونی جنگ جاری رکھنے کا ایک مقصد بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ جعلی ریاست کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے یہ عرصہ درکار تھا اور اگر جنگ ختم ہوتی تو دراڑیں منظر عام پر آتیں اور یہ ریاست ہمیشہ کے لئے ختم ہوکر رہ جاتی اور اب جبکہ جنگ بندی ہوئی ہے تو بھی لگتا نہيں ہے کہ یہ ریاست سنبھل سکی ہو۔

آج جنگ بندی کے بعد، ماہرین زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ سات اکتوبر کو بقاء کے بحران سے دوچار ہونے والی ریاست نے جو جنگ اپنی بقاء کے لئے لڑی وہ خود اس کے مزید تزلزل کا سبب بنی ہے اور غزہ پر مسلسل حملوں نے غاصب ریاست میں [غیر متوقعہ] دراڑیں ڈال دی ہیں جو بہت گہری ہیں اور یہ ریاست  اندر سے بہت کمزور ہو چکی ہے۔

تقریبا 16 مہینوں تک بہیمانہ اور وحشیانہ حملوں، انسانیت کے خلاف جرائم، نسل کشی، طفل کشی اور حرث و نسل کو تباہ کرنے کی اپنی سی کوششوں کے بعد، ـ اپنے قیدیوں کو بزور شمشیر رہائی دلانے، حماس کے مکمل خاتمے یا اسے غزہ کی حکومت سے ہٹانے، غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلاء اور انہیں مصر اور اردن بھیجنے وغیرہ اور حماس اور جہاد اسلامی سمیت مقاومتی تحریکوں کو بدنام کرکے فلسطینیوں کی آنکھوں سے گرانے جیسے، اپنے ہی اعلان کردہ [اور خفیہ] مقاصد میں سے، کسی بھی مقصد کو حاصل کئے بغیر نیز غزہ میں "مطلق فتح حاصل کرنے"ـ آج اسرائیلی ریاست کو حماس [ہی] کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہ ریاست نہ صرف اپنے کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی ہے، نہ صرف حماس کا خاتمہ نہیں کر سکی ہے، بلکہ اب اسے اس کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے اور مذاکرات کرنے جنگ بند کرنے، اور بڑی تعداد میں اپنے عقوبت خانوں میں پابند سلاسل فلسطینی اسیروں کو رہا کرنے پر مجبور ہے؛ یہی نہیں بلکہ اسے آج تباہ شدہ غزہ کے عوام کا جشن و سرور دیکھنا پڑ رہا ہے، القسام اور الجہاد کے مسلح مجاہدوں کو غزہ کی سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے دیکھنا پڑ رہا ہے، وہ دیکھ رہا ہے کہ فلسطینی عوام والہانہ انداز سے اپنے مجاہدین کا خیر مقدم کر رہے ہیں!

اسرائیلی ذرائع ابلاغ ہی نہیں بلکہ نیتن یاہو کی انسانیت دشمن کابینہ کے ارکان بھی آج اعتراف کر رہے ہیں کہ "اسرائیل کی بری طرح تذلیل ہوئی ہے اور حماس اس جنگ کی "مطلق فاتح" ہے"۔

محمد الضیف یہ سب کرنے کے بعد، آج سے چار ماہ قبل، شہید ہوگئے ہیں۔ وہ آج اس دنیا کے ضیف (مہمان) نہیں ہیں، لیکن جس عمارت کی بنیا ضیف سمیت مقاومت کے دوسرے شہیدوں نے رکھی ہے، وہ بدستور قائم و دائم اور پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ یہاں تک کہ رائٹرز نے امریکی ذرائع کے حوالے سے لکھا: "حماس نے سات اکتوبر کے بعد 15000 مزید مجاہدین بھرتی کر لئے ہیں"۔

مقاومت کی قرآنی تائید اور فتح کا قرآنی وعدہ

کفار کو شکست ہوگی اگر تم میں ان کے مقابلے کی ہمت ہو کیونکہ اللہ کی نصرت بدر و احد تک محدود نہیں ہے. اگر ان کے ہتھیاروں اور جنگی وسائل اور ظاہری رعب و ہیبت کو خاطر میں نہ لاؤ، تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ؛ [1]

ان کا مقابلہ کرکے دروازہ کے اندر داخل ہو، جب داخل ہو جاؤ گے تو پھر یقینا تم غالب آؤ گے اور اللہ ہی پر بھروسا کرو، اگر ایمان رکھتے ہو"۔

اور طالوت کا قصہ، آج بھی دہرایا جا سکتا ہے جیسا کہ غزہ میں دہرایا گیا:

ارشاد ربانی ہے:

"فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ قَالُواْ لاَ طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُو اللّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ • وَلَمَّا بَرَزُواْ لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُواْ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ • فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ۔۔۔"؛ [2]

بعدازاں، وہ [طالوت] اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، (اور آزمائشوں سے سرخرو ہوکر عہدہ برآ ہوئے تھے) اس نہر سے گذر گئے۔ (اپنی افرادی قوت کی قلت سے شکوہ کر رہے تھے، اور ان میں سے کچھ نے) کہا: آج ہمارے پاس جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن وہ جو جانتے تھے کہ انہیں اللہ سے دیدار کرنا ہے، انہوں نے کہا: "کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں اللہ کے اذن (و حکم) سے، اور اللہ صبر (اور استقامت) کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ * اور جب جالوت اور اس کی افواج کا سامنا کرنے کے لئے باہر نکلے تو کہا: اے ہمارے پروردگار، ہم پر صبر کی قوت نازل فرما، اور ہمارے قدموں کو جما دے، اور کفار کی جماعت کے مقابلے میں ہماری مدد فرما * تو انہوں نے ان لوگوں کو اللہ کے اذن (و حکم) سے شکست دی۔۔۔"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: الہام معین قفقازی ـ فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

حوالہ جات:



[1]۔ سورہ مائدہ، آیت 23۔

[2]۔ سورہ بقرہ، آیات 249-251۔